اللہ کے رسولﷺکی دعائیں (10)
حضرت عبد الله ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (دعا کرتے ہوئے) فرمایا کرتے تھے: “اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ”۔کہ” اے اللہ میں نے تیرے آگے سر تسلیم خم کیا ، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، سب سے کٹ کر تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں، کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا دے، تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے”۔ (صحیح مسلم )
یہ دعا بھی’اسلام‘ یعنی اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، ’ایمان‘ یعنی اس پر کامل یقین رکھنا،’توکل‘ یعنی صرف اسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا اور’انابت‘ یعنی اس کے علاوہ ہر کسی سے کٹ کر صرف اسی کی طرف متوجہ ہوجانا جیسے اوصاف بیان کرتی ہے۔دعا میں اللہ کی عزت کی پناہ طلب کی گئی ہے۔اللہ کا ایک نام’العزیز‘ہے جس کا معنی ہے ایک ایسی ذات جو نہایت قوی ہے۔کوئی دوسرا اس کی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہر مخلوق اس کی محتاج ہے اور اسے کسی کی ضرورت یا حاجت نہیں ہے۔انسان کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس کا رب’العزیز‘ ہے تو اس کے دل میں پھر کسی اور کا ڈر نہیں رہتا کیوں کہ خدا سے زیادہ طاقت ور کائنات میں اور کوئی نہیں ہے۔ہر چیز اس کے کنٹرول میں ہے۔
دعا میں ’ضلالت‘ یعنی سیدھے راستے سے ہٹ جانے کا ذکر ہے۔اس سے پہلے یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ اللہ کے رسولﷺکی دعاؤں کا اکثر حصہ امت کو سکھانے کے لیے ہے نہ کہ خود ان کے لیے۔اللہ کے رسول ﷺسیدھے راستے سے ہٹ جائیں یہ محال ہے۔بہرحال ہمارے لیے یہ دعا بڑی ہی اہمیت کی حامل ہے۔انسان کو ہمیشہ اللہ تعالی سے سیدھے راستے پر جمے رہنے اور اسی پر مرنے کی دعا کرنا چاہیے کیوں کہ جو بھی سیدھے راستے یعنی اسلام سے دور ہوگا اس کا خاتمہ یقینا بہت برا ہوگا۔دعا کے آخر میں اللہ کا ایک خاص وصف بیان کیا گیا ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے علاوہ پوری دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی۔دعا میں گوکہ صرف انسانوں اور جنوں کا ذکر ہے مگر اس سے اللہ کے علاوہ ہر چیز مراد لی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب بھی دوران سفر رات کے اخیر وقت میں عبادت کے لیے بیدار ہوتے تو یہ کہا کرتے: ”سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللَّهِ، وَحُسْنِ بَلَائِهِ عَلَيْنَا، رَبَّنَا صَاحِبْنَا، وَأَفْضِلْ عَلَيْنَا، عَائِذًا بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ“۔’سمع‘کو دو طرح سے پڑھا جاسکتا ہے۔ایک طریقہ ہے میم پر زبر اور تشدید کے ساتھ اس کا معنی ہوگا کہ جو بھی میرے یہ الفاظ سنے وہ دوسروں تک پہنچا دے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میم پر زیر ہواور تشدید نہ ہو۔اب معنی ہوگاہماری حمد پر ہر سننے والا گواہ ہوگا۔دعاکا معنی ہوگا کہ” ہر سننے والا گواہ ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کررہے ہیں اس پر کہ اس نے ہمارے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ اے ہمارے رب! ہمارے ساتھ رہ، ہم پر اپنی نعمتین نچھاور کر ، میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کر رہا ہوں(صحیح مسلم)۔اس دعا میں اللہ سے سفر میں ساتھ رہنے اور اپنی نعمتیں نچھاور کرنے کا ذکر ہے۔اللہ مومنوں کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔سفر میں ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ سفر میں آنی والی پریشانیوں اور صعوبتوں سے بچا اور یہ سفر اچھے سے اپنے اختتام کو پہنچے کیوں کہ سفر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کبھی کبھی کئی ساری دشواریاں پیداکردیتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺاس طرح دعا کیا کرتے تھے: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّي وَهَزْلِي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔ کہ ” الٰہی! میری خطا معاف فرما دے۔ نیز میری نادانی و جہالت کے کاموں کو بخش دے۔ میرے کام میں مجھ سے جو زیادتیاں سرزد ہوئیں ان کو بھی اور جو کچھ میرے بارے میں تیرے علم میں ہے ان سب کو بھی معاف فرما دے۔ اے اللہ! مجھ سے ارادۃ یا غیر ارادی طور پر جو کچھ صادر ہوا اس کی مغفرت فرما دے۔ خواہ وہ غلطی سے ہوا ہویا ارادے سے ہو یہ ، یہ سب اعمال مجھ سے ہوئے ہیں ۔ اے اللہ! جو کچھ میں کر چکا ہوں یا جو آئندہ کروں گا اور جو میرا پوشیدہ ہے یا جو مجھ سے ظاہر ہوا ہے اور جو کچھ بھی میرے متعلق تیرے علم میں ہے وہ سب بخش دے۔ تو ہی پہلے ہے اور تو ہی بعد میں اور تو ہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے”۔(متفق علیہ)
امام نووی لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے محض تواضع اور انکساری کی بنا پر ان تمام چیزوں سے استغفار کیاہے۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے اپنے شایان شان خدا کی عبادت اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں جو کمال درجہ ہے وہاں تک نہ پہنچنے کو بھی گناہ خیال کرکے اس سے مغفرت طلب کی ہو۔یا آپ سے کوئی بھول ہوگئی ہو۔یا نبوت سے پہلے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو۔بہرحال جو بھی ہو اتنا طے ہے کہ اللہ کے رسولﷺسے ہونی والی ایسی تمام چیزیں اللہ نے پہلے ہی معاف فرمادی ہیں۔لہذا یہ تمام دعائیں آپ کی انکساری اور تواضع پردلالت کرتی ہیں اور آپ کے شوق عبادت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ ’بے شک دعا عبادت ہے‘۔
امام نووی اس دعا کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:” اللہ کے رسول ﷺنے ان تمام چیزوں سے محض تواضع اور انکساری کی بنیاد پر مغفرت طلب کی ہے۔آپ نے ایک توجیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ اللہ کے رسولﷺجب خدا کے حقوق اداکرتے ہیں اور جب وہ اللہ کی عظمت و برتری کی طرف توجہ کرتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ خدا کا جو حق تھا وہ تو ادانہ ہوا بس اسی درجہ کمال تک نہ پہنچ پانے یا کم از کم اس کے احساس کے تحت آپ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے”۔ایک رائے یہ بھی لکھی ہے کہ ان تمام چیزوں سے مراد ایسے اعمال ہیں جو آپ سے سہوا سرزد ہوئے ہیں جن پر اللہ کی طرف سے کسی طرح کی کوئی پکڑ نہیں ہوتی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سب سے نبوت سے پہلے کے احوال مراد ہوں بہرحال آپ نے آخر میں لکھا ہے کہ اللہ کے رسولﷺکے تمام اعمال اللہ نے معاف فرمادیے ہیں لہذا ایسی تمام دعائیں محض تواضع اور انکساری کا نتیجہ ہیں۔(المنهاج شرح مسلم)
ایک عام انسان کے لیے یہ دعائیں بہت ہی اہم اور کارآمد ہے کیوں کہ اس میں زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔خطا جو نادانستہ سرزد ہوجاتی ہے،وہ گناہ جو انسان محض اس لیے کرگزرتا ہے کہ اسے اس چیز کے گناہ ہونے کا پتہ نہیں ہوتا،کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اس میں شریعت کی مجوزہ حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔گناہ کبھی تو سنجیدگی سے کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ہنسی مذاق اور بے خیالی میں بھی ہوجاتا ہے۔غرض ہر قسم کے گناہ اور خطائیں اس میں سمودی گئی ہیں۔ایک بہت ہی خوب صورت جملہ ’وما أنت أعلم بہ منی‘ہے جس کا مطلب ہے کہ کچھ گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انسان کو وہ مطلق یاد ہی نہیں ہوتے کہ اس نے کیے ہیں لیکن بہرحال وہ ہیں تو گناہ ہی اور اللہ سے بھلا وہ کیسے چھپ سکتا ہے۔انسان اپنی غفلت کی بنا پر اس گناہ کو بھلا دیتا ہے مگر اللہ کے نزدیک تو ہر چیز لکھی جاتی ہے۔لہذا اللہ کے رسولﷺنے ایسی خطاؤں کو بھی دعا کا حصہ بنا دیا تاکہ انسان کی تمام خطائیں معاف ہوجائیں۔دعا کے الفاظ اور اس کی تراکیب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ کے رسولﷺجیسا فصیح و بلیغ اور جوامع الکلم شخص کائنات میں اور کوئی نہیں جو انسان کے لطیف سے لطیف پہلوؤں پر نظر رکھتا ہے اور ان کو پیرایہ اظہار بھی عطا کرتا ہے۔